Thursday, 23 February 2012

کمپنی کے ساتھ جڑے نام نہاد علما کے جھوٹ اور انکا طریقہ واردات

ہمارے ملک میں علما اور دیندار طبقہ کے بدنام کرنے کے لیے کتنی کوششیں کی گئیں اور کی جارہی ہیں، یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے ماضی سے اچھی طرح واقف ہیں ، انہیں پتا ہے کہ مسلمان جب تک دین،  شعائر دین اور حاملین دین سے جڑےرہے انہیں گمراہ کرنا مشکل ثابت ہوا ،   چنانچہ یہ لوگ شروع دن سے  مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کے  مختلف طریقے اختیار کرتے آرہے ہیں ،  برصغیر میں انگریز نے آکر  شروع میں  وارثین علوم  نبوت کا قتل عام کیا   مدارس کو تباہ کیا  کہ اگر ان دینی مدارس  اور اساتذہ  کو ختم کردیا گیا   تو مسلمانوں کو دین سمجھانے والا کوئی نہیں رہے گا  ، پھر انہیں آسانی سے گمراہ کیا جا سکے گا۔ جب انہیں اپنی یہ کوشش ناکام ہوتی نظرآئی تو انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کیلئے اپنے زرخرید ایجنٹوں کو استعمال کیا اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے ۔  ہردور میں دین او ر دینی طبقہ کو بدنام کرنے کے لیے  باطل کے طریقہ کار میں جدت آتی رہی ،   پچھلے چند سالوں  میں جب میڈیا سرکاری سطح سے نجی سطح پر آیا اور نت نئے چینل کھلنے لگے  تو ٹی وی پر  جہاں مغرب کے  تلوے چاٹنے والے  نام نہاد دینی  سکالرز و ڈاکٹر   زبرساتی مینڈکوں کی طرح ٹراتے ، دینی  احکام کی عجیب و غریب من مانی تشریحات کرتے نظر آئے وہاں عالم آن لائن جیسے  خصوصی طور پر ایسے پروگرام ترتیب دیے گئے جن میں  انہی فرقوں کے مولوی نما لوگوں کے فروعی مسائل پر بحثیں اور مناظرے چلا کر  عوام کے سامنے علماء  کا مذاق بنایا جاتا  اور  اصل علما سے بد ظن کیا جاتا  ہے ، اس کے علاوہ   چینل کی مشہوری کیلئے بریکنگ نیوز کے چکر میں پراپیگنڈہ بازی کی قسطیں چلائی جاتی ہیں کبھی  کبھی  کسی داڑھی والے کے  برے عمل کو اچھا ل کر اسے علما کا نمائندہ بناتے ہوئے  سارے علما پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے،  تو کبھی جعلی مولویوں، قاریوں اور پیرو ں کے مکروہ اعمال اور حرکتوں   کی میڈیا کے ذریعہ تشہیر کرکے  علما او ر صوفیا سے نفرت عوام کے دلو ں میں بٹھائی جاتی ہے، چند ہی دن پہلے ایک  نشئیوں کے علاج گاہ کو مدرسہ قرار دے کر سارے مدارس کو بدنام کرنے کی مہم چلائی  گئی  ، اس کے پیچھے بھی یہی عنصر کارفرما تھا۔
 تھوڑی سی تحقیق  کرنے والا اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے کہ  علما و دیندار طبقہ کی کردار کشی کی یہ  مہم اتفاقیہ نہیں  بلکہ پوری پلاننگ کے ساتھ چلائی جارہی ہے، اور اس کے پیچھے باقاعدہ باطل کی ایک لابی ہے، جو    انتہائی غیر محسوس طریقے سے وارثین علوم نبوت اور دین کے رکھوالوں کے خلاف عوام کے دلوں میں وساوس پیدا کرتے رہتے ہیں۔ 
 ابھی  تک باطل نے جتنی کوششیں کیں ہیں اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں ان کوششوں کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ دین  اور دینی علما سے بیزار نظر آتا ہے۔عوام میں دینی مسائل پر زبردست  انتشار پایا جاتا ہے اور وہ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ  ان ساری کوششوں کے باوجود ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو علما پر  اعتبار کرتے ہیں، اپنے دینی مسائل میں انکی طرف رجوع کرتے ہیں اور  معاشرہ میں ابھی بھی  دیندار طبقہ کو  عزت  کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے  خصوصا  علما کے بعد  ہمارے معاشرے میں تبلیغی جماعت کو بھی بہت  مقبولیت اور عزت ملی ہے، عوام کا بہت بڑا طبقہ انکی اور انکے کام کی تعریف کرتا  نظر آتا ہے۔ 

کمپنی کا طریقہ واردات
ابھی میں باطل کی   جس  مکروہ سازش اور پروگرام کا ذکر کرنے جارہا ہوں   وہ اتنی گہری اور سخت ہے کہ  اگر یہ سازش اسی طرح کامیابی سے  چلتی رہی تو ایک وقت آئے گا کہ عوام  کے    دلوں میں سے علما اور تبلیغی لوگوں کی  رہی سہی محبت  بھی ختم ہوجائے گی اور عوام انہی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اس کے بعد  باطل کو اپنے کارندوں بیروپیوں کے ذریعے کھل کر عوام کے ایمان سے کھیلنے کا موقع مل جائے گا ،  عوام کی دیندار طبقہ سے بدظنی سے وہی صورتحال بھی پیدا  کرے گی  جس نے عیسائی لوگوں کو مذہب کو  اپنی زندگی سے علیحدہ کرکے گرجا گھروں تک محدود کرنے پر مجبور کردیا تھا اور آج ان کا دین  ان لوگوں کا ذاتی  خواہش کے مطابق  ہے  اور عیسائیت تباہی کا شکار ہے۔ اللہ اس وقت سے بچائے۔ 

کیپ ایبل ایشیا نامی کمپنی :۔ 
دو تین سال سے ہمارے  پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصا پنجاب اور سرحد کے بڑے شہروں میں ایک کمپنی کیپ ایبل ایشیا کے نام سے سامنے آئی ہے۔  اس کمپنی کا مالک کون ہے اس کانام کیا ہے اسکا آج تک کچھ نہیں پتا چل سکا ، اس بندے نے خود کو خفیہ رکھ کر   مختلف مشہور مدارس خصوصی تبلیغی مدارس سے  علما  کو اپنے ساتھ ملا کر ایک کاروبار شروع کیا۔  راولپنڈی سے مولانا اسامہ ضیا، مولانا نصیر اور مولانا احسان الحق کے نام  شروع میں اس کمپنی کے پاکستانی ذمہ داروں کے طور پر لیے جاتے تھے  ۔ ان علما نے   اپنے مدرسے کے  کچھ طلبا کو ساتھ رکھ کر اس کاروبار کو پھیلانے کی کوشش کی  ، اس مدرسہ کے بڑے علما کو جب اس کاروبار کا پتا چلا تو انہوں نے ان علما اور طلبا کو مدرسے سے فارغ کردیا۔ مولانا نصیر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بروقت اس کمپنی سے اپنی جان چھڑا ئی اور وہ دوبارہ وہیں پڑھا رہے ہیں۔

کمپنی کا کاروباری طریقہ کار :۔
کمپنی کے  پاکستانی ذمہ داران  یہ بتا کر کہ  انکی کمپنی  ملائشیا اور تھائی لینڈ میں مختلف بڑے   کاروبار  کررہی ہے '  عوام سے اس کاروبار میں   پیسہ لگانے  کا کہتی ہے اور  ایک لاکھ کے پیچھے علما کو سات سے آٹھ ہزار اور  عوام کو چار ہزار سے پینتالیس سو تک مہینے کا منافع دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ 

کمپنی  کی کامیابی کی وجہ :۔
ایک اندازے کے مطابق یہ کمپنی  صرف ایک ڈیڑھ سال میں   صرف راولپنڈی اسلام آباد اور ایبٹ آباد سے  عوام  کی  اسی ارب سے  زائد رقم   ملائیشیا منتقل کرچکی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام نے اتنی جلدی اور آسانی سے انہیں  اپنا پیسا کیسے  دے دیا ؟  اس کی چند وجوہات  درج ذیل ہیں۔
  1. جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کمپنی کے خفیہ مالک نے   کمپنی  کے فرنٹ پر جن لوگوں کو رکھا  ہے وہ مسلک دیوبند سے   تعلق رکھنے والے  اور تبلیغی حضرات   ہیں جنکی بات کی ہمارے معاشرے میں عام طورپر  قدر کی جاتی ہے  اور انکو اچھی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے۔دوسری بات  ان لوگوں نے مضاربت کے نام پر    پاکستان کے بڑے بڑے مدارس سے فتاوی بھی لیے ہوئے   (ان فتاوی کی اصل حقیقت کیا ہے اس کا ذکر آگے آئے گا ) یہ  لوگ اپنی  ساکھ اور  ان فتاوی کو کیش کرتے ہوئے عوام  خصوصا  عوام میں سے وہ طبقہ جن کے دلوں میں علما کی قدر ہے کو بڑی  آسانی سے اپنے جال میں پھنسا   لیتے  ہیں  ۔
  2. مارکیٹ میں بنک وغیرہ ایک لاکھ پر ذیادہ سے ذیادہ پندرہ سو روپیہ دے رہے ہیں اور یہ کمپنی  چار ہزار سے سات ہزار روپے تک دینے کا وعدہ کرتی ہے۔
  3.  ان کا سب سے بڑا مکر  اور تباہ کن طریقہ ٹرک  جس کی بنا پر ان کا  ہر شہر ، بستی کی عوام کا پیسااکٹھا کرنا بھی آسان ہو  جاتا ہے وہ  یہ    ہے کہ یہ جس علاقے یا بستی میں بھی جاتے ہیں سب سے پہلے وہاں کے مشہور اور اثر  رکھنے والے  علما سے اپنی جان پہچان بنا  تے ہیں اور  ان کو ایک پورے   قائل کردینے والا لیکچر   سناکر کمپنی کے ساتھ اپنے پیسے کے ذریعے کاروبار کرنے کو کہتے ہیں۔   ان لوگوں کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ ہم علما کو  کاروبار میں آگے لانا چاہتے ہیں اور انہیں خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ،  اس لیے ہم علما کو  خصوصی رعایت اور منافع بھی  دے  رہے ہیں  ۔ قائل کرنے والا چونکہ خود بھی عالم ہوتا ہے اور ایک اچھے مدرسے کے ساتھ اپنا تعلق بتا تا ہے  اور اس کے پاس فتاوی بھی ہوتے ہیں اور کمپنی کا جو کاروبار وہ بتاتا ہے اس میں بھی کوئی حرام کا  ظاہر ی طور پر کوئی عنصر نظر نہیں آتا اس لیے اس بستی کے علما آرام سے ان کے جال میں آجاتے ہیں ۔ یہاں سے ہی اس بستی کے  ان لوگوں کی بدبختی آجاتی ہے جو  علما اور دیندار طبقہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں۔ یہ لوگ پھر اس عالم کا سٹام پیپر  جس پر درج ہوتا ہے کہ  انہوں نے اتنا پیسا جمع کروایا ہوا ہے دکھا کر  اس بستی اور قریب و جوار کی عوام  سے پیسا جمع کرنا شروع کرتے ہیں یہاں ان لوگوں کو صرف یہی  دلیل دینی پڑتی ہے کہ آپ کی بستی کے اس بڑے عالم نے ہمارے کاروبار کو جائز کہا ہے اس لیے انہوں نے خود بھی اتنے لاکھ روپیہ  جمع کروایا ہے۔    اس طریقے سے ہر علاقہ بستی سے عوام کے کروڑوں روپے لے چکے ہیں  ۔  لوگوں نے اپنی زمینیں ، مویشی، دکانیں پیچ کر پیسے ان کے پاس جمع کروائے ہوئے ہیں۔ 

 کمپنی کے ساتھ جڑے ہوئے نام نہاد  علما کے جھوٹ
..
مفتی رضوان صاحب،   ادارہ غفران،  راولپنڈی    کا تحقیقی فتوی :۔

کیپ ایبل ایشیا کمپنی کے کاروبار کے شرعی حکم کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں ہمارے ادارہ غفران سے ایک جواب مورخہ پندرہ صفر1432 کو تحریر کیا گیا تھا اور یہ جواب ماہنامہ التبلیغ ادارہ غفران کے شمارہ صفر 1432  میں شائع ہوا تھا جس میں اس کمپنی کے کاروبار کے وجود اور شرعی جواز کے مبہم، مشکوک اور غیر مطمئن ہونے کا اظہار کیا گیا تھا،  اس کے چند ہی دنوں کے بعد اس کمپنی کے بعض نمائندگان نے ادارہ غفران میں آکر اپنی کمپنی کے وجود اور شرعی جواز پر اطمینان دلانے کی کوشش کی تھی ، جس پر ان سے کچھ شواہد اور ثبوتوں کے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان حضرات نے ان مطلوبہ شواہد اور ثبوتوں کو جلد ہی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی دارلعلوم کورنگی کراچی  کے چند اہل علم حضرات کے نام بھی ذکر کیے تھے کہ وہ  ان کی کمپنی اور کاروبار کی سرپرستی و نگرانی فرمارہے ہیں ، لیکن تاحال  ان حضرات  کی طرف سے  کوئی مطلوبہ ثبوت فراہم نہیں کیا گیا اور ہمارا دارلعلوم کراچی کے ان اہل علم حضرات سے رابطہ کرنے پر ان کی طرف سے اس کمپنی کی سرپرستی و نگرانی کی بات بھی خلاف حقیقت ثابت ہوئی۔
لیکن اس کے باوجود اس کمپنی کے کئی نمائندگان کے بارے میں یہ سننے میں آتا رہا کہ وہ ہمارے متعلق یہ بات نشر فرما رہے کہ وہ ہمیں مطلوبہ شواہد اور ثبوت فراہم کرچکے ہیں اور ہمیں اس کمپنی کے وجود اور کاروبار کے جواز پر اطمینان دلا چکے ہیں ، جبکہ یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے۔ اس لیے  اس تحریر کے ذریعہ سے ادارہ غفران کی طرف سے یہ انتبا کیا جاتا ہے کہ کیپ ایبل کمپنی کے بارے میں ادارہ غفران کے دارالافتا کے اہل علم حضرات کی رائے تاحال وہی ہے  جو صفر 1432 ہجری کے ماہنامہ التبلیغ میں شائع ہوچکی ہے مزید دارالافتا دارلعلوم کورنگی کراچی سے  جاری شدہ جو فتاوی اس کمپنی کے بارے میں ہماری نظر سے گزرے ہیں ، ان میں بھی اس کمپنی کے وجود اور اس کمپنی کے کاروبار کے جواز کا واضح اور متعین حکم نہیں لگایا گیا۔

دارلعلوم کراچی کے فتاوی
فتوی نمبر 1
یہ اوپر تو مذکورہ شقوں سے متعلق بحث تھی کہ وہ جائز ہیں یا نہیں، تاہم یہ سرمایہ لگانے والوں کی  ذمہ داری ہے کہ وہ سرمایہ لگانے سے پہلے اس بات کا اطمینان حاصل کرلیں کہ
  1. مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ حقیقت میں رقوم کیسی کاروبار میں لگائی  جارہی ہیں یا نہیں ؟
  2. اور وہ کاروبار بھی جائز ہے یا نہیں ؟
  3. اور اس کے روزمرہ کے معاملات بھی شریعت کے مطابق ہورہے ہیں یا نہیں ؟
  4.  نیز اگر کوئی ادارہ عوام سے بڑی مقدار میں رقوم لے رہا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ملکی قانون کے مطابق " سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان " میں اپنی کمپنی  رجسٹر کرائے اور اپنی کاروباری سرگرمیوں کا قانونی سرٹیفیکیٹ حاصل کرے  تاکہ عوام  سے لی گئی رقوم کا تحفظ ہوسکے ۔
لہذا  اپنا سرمایہ لگانے والوں پر لازم ہے کہ اس سلسلے میں بہت احتیاط سے کام لیں اور صرف اسی جگہ سرمایہ کاری کریں جو جائز بھی ہو اور قانون کے مطابق بھی ، تاکہ  ملکی قانون کی خلاف ورزی کا گناہ لازم نہ آئے اور انکا حلال سرمایہ بھی محفوظ ہوسکے ، کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں کہ بظاہر جائز معاہدوں کی بنا پر اور بڑے حلال نفع کا لالچ دے کر لوگوں سے رقوم لی گئیں اور بعد میں خرد برد کرکے عوام کو ان کےسرمایہ سے محروم کردیا گیا۔ ۔ ۔ واللہ سبحانہ اعلم۔
محمد جاوید حسن غفرلہ
دارالافتا جامعہ دارلعلوم کراچی 14
14 مئی 2011  ، 10 جمادی الاخری1432 ، 
فتوی 1358/66

فتوی نمبر 2
مذکورہ کمپنی  ( کیپ ایبل ایشیا) کے کاروبار سے متعلق ہمیں علم نہیں کہ وہ کیا کاروبار کررہی ہے  اور اس کے روزمرہ کے معاملات بھی ہمارے سامنے نہیں ہیں ، نیز حکومت کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی ادارہ عوام سے بڑی مقدار میں رقوم لے رہا ہے تو وہ " سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان " میں اپنی کمپنی  رجسٹر کرائے اور اپنی کاروباری سرگرمیوں کا قانونی سرٹیفیکیٹ حاصل کرے  تاکہ عوام  سے لی گئی رقوم کا تحفظ ہوسکے ۔، ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ کمپنی SECP” " سے رجسٹرڈ بھی نہیں ہے ، لہذا  ان وجوہات کی بنا پر مذکورہ کمپنی کے کاروبار کے جواز یا عدم جواز  سے متعلق ہم کوئی حکم نہیں لگا سکتے ، جو شخص اس کمپنی میں رقم لگانا چاہے وہ اپنی ذمہ داری پر لگائے ، نیز اس سلسلہ میں مذکورہ فتوی بھی ملاحظہ فرمالیں ۔
محمد جاوید حسن
دارالافتا جامعہ دارلعلوم کراچی 14
19 جمادی الاخری، 1432،  23 مئی 2011

سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان  کی طرف سے روزنامہ ایکسپریس ، اسلام آباد  میں 7 جولائی  2011 کو جو اعلان شائع ہوا وہ درج ذیل ہے۔

سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان
اطلاع عام
سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان   کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ کمپنیاں خود کو ملائشیا میں رجسٹرڈ ظاہر کررہی ہیں اور " مضاربت نامہ" کے معاہدہ کے ذریعے لوگوں سے رقوم اکھٹی کررہی ہیں ، یہ کمپنیاں معصوم لوگوں کو مارکیٹ سے ذیادہ منافع دینے کا کہہ کر غیر قانونی طور پر رقوم وصول کررہی ہیں۔ ان کمپنیوں  میں  Capable Asia, Capable Industry, Capable Asia SDN BHD شامل  ہیں ۔ایس ای سی پی واضح کرتی ہے کہ ایسی کمپنیاں  مقامی  یا غیر ملکی کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں اور نہ ہی ایس ای سی پی  نے ان  کمپنیوں کو ملک میں کاروبار چلانے کے لیے یا عوام الناس سے رقوم وصول کرنے کے لیے کوئی لائسنس جاری کیا ہے۔
کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی اور غیر قانونی ڈیپازٹ سکیموں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایس ای سی پی عوام الناس کو آگاہ کرتی ہے کہ ایسی غیر رجسٹرڈ / غیر لائسنس یافتہ کمپنیوں کے ساتھ  مالی لین دین سےباز رہیں ۔ کوئی بھی فرد ان  غیر قانونی کمپنیوں کے ساتھ مالی لین دین کا خود ذمہ دار ہوگا۔
PID(1)3094/11

ہم نے انٹر نیٹ کے ذریعے  ایس ای سی  پی کی ویب سائیٹ   ملاحظہ کرنے سے بھی اس نوٹس کی تصدیق  ہوئی۔ کمپنی سے تعلق رکھنے والے بعض حضرات کی طرف سے  سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان  کے مذکورہ اشتہار کے بارے میں یہ بات سننے میں آرہی ہے کہ انہوں نے اس اعلان کے بعد اپنی کمپنی کو سرکاری طور پر رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ حالانکہ اولا تو اس کمپنی کے کاروبار کے جواز کے لیے صرف رجسٹرڈ ہونا کانی نہیں دوسرے کسی کمپنی کا صرف پرائیویٹ کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہونا کافی نہیں بلکہ عوامی فنڈنگ کے لحاظ سے   ایسی ای سی پی نامی ادارے کے تحت پبلک کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے( لوگوں سے فنڈ جمع کرنے کی اجازت پبلک کمپنی کو ہوتی ہے، پرائیویٹ کمپنی کے لیے لوگوں سے فنڈ جمع کرکے  کاروبار کرنا غیر قانونی ہوتا ہے)۔تیسرے یہ دعوی اس وقت تک ناکافی ہے جب تک مذکورہ ادارہ کی طرف سے باقاعدہ اسکی تصدیق جاری نہ ہو ۔( کیونکہ یہ لوگ ابھی تک علما کے فتوی کے بارے میں بھی اسی طرح کا جھوٹ بولتے آرہے ہیں-ناقل )۔
 محمد رضوان 
28 صفر1433-23 جنوری2012
ادارہ غفران، راولپنڈی



مفتی رضوان صاحب کی مکمل تحقیق انکے رسالہ التبلیغ فروری 2012 کے شمارے میں چھپی تھی۔
مفتی رضوان صاحب  نے دارالعلوم کراچی کے ارسال کیے گئے مزید فتاوی  بھی شائع کیے ہیں ، ان کو بھی ہم یہاں  پوسٹ کرتا ہوں ۔شاید دارلعلوم سے کسی سائل نے کمپنی ایس ای سی پی سے رجسٹر ہونے کا سرٹیفکیٹ ا ٹیچ کر کے فتوی پوچھا تھا۔  جس کے جواب میں دارالافتا والوں کا جواب یہ ہے۔
فتوی
استفتا کے ساتھ جو سرٹیفیکیٹ منسلک کیا گیا ہے وہ غیر مصدقہ کاپی ہے ، جس میں جعل سازی کا امکان ہے ، ایس ای سی پی  نے ایکسپریس اخبار میں اطلاع عام کے عنوان سے  ایک اشتہار دیا ہے  جس میں کیپ ایبل  ایشیا  کا  نام لے کر کہا گیا ہے کہ یہ کمپنی ہمارے ہاں رجسٹر نہیں ہے اور یہ کمپنی معصوم لوگوں کو مارکیٹ سے ذیادہ منافع دینے کا کہہ کر غیر قانونی طور پر رقوم وصول کررہی ہے ، اس اطلاع میں عوام کو اس کمپنی میں سرمایہ لگانے سے باز رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
یہ اطلاع 7 جولائی 2011 کو اخبار میں دی گئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کمپنی دسمبر 2010 میں رجسٹرڈ ہو اور ایس ای سی پی  کی طرف سے جولائی 2011 میں اعلان آئے کہ یہ کمپنی ہمارے ہاں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
نیز ایس ای سی پی کی ویب سائیٹ پر رجسٹرڈ کمپنیوں کے نام موجود ہوتے ہیں  لیکن کیپ ایبل ایشیا کا نام ان میں موجود نہیں  اور جو رجسٹرڈ نمبر دیا گیا ہے وہ بھی وہاں تلاش کرنے سے نہیں ملا۔ ان وجوہات کی بنا پر محض اس فوٹو کاپی کی بنا پر اس کمپنی کو ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اور اس سے وجہ سے قطع نظر دوسری وجوہات کی بنا پر ہمارا سابقہ فتوی اب بھی برقرار ہے۔
سید حسین احمد  دارلافتا جامعہ دارلعلوم کراچی
29 شوال المکرم 1432ھ، 28 ستمبر  2011
فتوی نمبر 8/1388 مورخہ 30/10/32 ھ۔ 29/9/2011

 مفتی صاحب نے اپنے اگلے فتوے میں  لکھا  کہ کمپنی اگر ایس ای سی پی کے پاس رجسٹر ڈ ہو بھی جائے تو تب بھی لازمی نہیں کہ اس کا کاروبار حلال ہوگیا ہے ، ایس ای سی پی کے پاس تو ایسے کئی  بڑے بڑے ادارے رجسٹرڈ ہیں جو سود کا کام کرتے ہیں۔ کمپنی کی رجسٹریشن سے کمپنی   صرف قانونی ہوگی  ، جائز امور میں حکومت وقت کی پابندی کا لحاظ رکھنا بھی شرعی ضرورت ہے اس لیے اس پر زور دیا جاتا ہے ۔ باقی    کمپنی کا کاروبار  اس وقت جائز ہوگا  جب اس رقم سے جائز کاروبار کیا جائے گا  جس کے کمپنی ابھی تک کوئی ثبوت مہیا نہیں کرسکی۔ محض زبانی جمع خرچ کیا جاتا ہے۔

خطرے کی گھنٹی

اوپر کی تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ کمپنی نہ تو  گورنمنٹ کے قانون کے مطابق  نہ تو پبلک کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی  دو سالوں میں اپنے کاروبار کا مطالبہ کے باوجود شرعی جواز مہیا کرسکی ہے بلکہ صرف علما اور دیندار طبقہ کو سامنے رکھ کر اور عوام کو جھوٹ فتوے اور سرٹیفیکٹ دکھا  کر   لوگوں سے دھڑا دھڑ پیسے اکٹھے کر رہی ہے اور وہ دنیادار طبقہ جو علما اور دیندار لوگوں  خصوصا تبلیغی حضرات کی عزت کرتا ہے انہی  کو دیکھتے ہوئے اپنا کڑوروں روپیہ ان کے پاس جمع کرواتا جارہا ہے۔  ان کے پاکستانی ذمہ داران  خود جانتے ہیں کہ یہ کمپنی ذیادہ دن نہ چل سکے گی اور نہ منافع دے سکے گی  کیونکہ انکا منافع عوام کے دیے گئے پیسے میں سے ہی نکالا جاتا ہے اس لیے ان میں سے ذیادہ تر  حضرا ت نے ڈبل نیشنیلٹی   حاصل کرلی ہے ، جس دن  کمپنی کو پاکستان سے پیسا ملنا بند ہوگیا   یا کسی اور  وجہ سے کمپنی نے  پاکستان میں اپنا کاروبار بند کردیا ، عوام  نہ تو  گورنمنٹ کے ذریعے اپنا پیسا واپس لے سکیں گے اور  ان کے پاس   کمپنی تک ڈائریکٹ پہنچنے کی کوئی آپشن ہوگی کیونکہ اسکا کوئی وجود ہی نہیں ۔   پاکستان میں اسی کمپنی کے ذمہ دار  اور فرنٹ مین علما  خود کو اور ان دینی مدارس کو بدنام کروائیں گے ہی جن کے وہ فتوے لیے پھرتے ہیں ، ہر علاقے کا وہ عالم  اور دیندار آدمی بھی قابل نفرت ہوجائے گا  جس کو دیکھ کر اور اس پر اعتماد کرکے  عوام نے  اپنی جمع پونجی کمپنی کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی تھی۔ اس بچے کچھے دیندار طبقے سے   جو نفرت عوام کے دلوں میں بیٹھے گی اس  کو  مزید پھیلانے میں طاغوتی میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔

التماس
  1.  میری پہلی درخواست تو ان علما اور دیندار لوگوں سے ہیں جو ا س کمپنی کا پاکستان میں  کاروبار چلا رہے ہیں  کہ یہ آپ کا انفرادی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ آپ کے ان اعمال سے اجتماعی نقصان پہنچنے والا ہے۔  آپ اللہ سے ڈریں آپ  کے  اس  کاروباری دھوکہ سے قیامت والے دن   صرف لوگوں کے لوٹے گئے   پیسے  کا وبال آپ پر نہیں آئے گا بلکہ  آپ جس طبقہ سے اپنا تعلق بتاتے ہیں اس  مسلک کے سارے علما  سے   عوام کی بدطنی   پھر گمراہی کے  بھی  آپ ذمہ دار ہوں گے۔
  2.   دوسری درخواست میری   ان لوگوں سے ہے جو محض منافع کے لیے چند  علما کی   اندھی تقلید میں اپنا سرمایہ  ان لوگوں کو دیتے جارہے ہیں ۔جناب آپ لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے اب آپ کی مرضی ہے کہ اپنی تباہی کا انتظار کریں  یا کمپنی کے بھاگنےسے پہلے پہلے جلد از جلد اس سے  اپنا پیسا واپس  لینے کی کوشش کریں، علما نے آپ کو حقیقت سے آگاہ کرکے اپنا فرض پورا کرلیا ہے بعد میں  وہ  آپ کی تباہی کے ذمہ دار نہیں ہونگے۔
  3. میری تیسری درخواست اپنے قارئین سے کہ وہ جہاں بھی  اٹھتے بیٹھتے ہیں وہاں  اس کمپنی کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کریں اور اس آرٹیکل کو انٹرنیٹ پراور اپنے علاقہ میں ذیادہ سے ذیادہ  پھیلانے کی کوشش کریں۔
وما علینا الا البلاغ۔ 

1 comments:

Heaven of Earning نے لکھا ہے کہ

ہندوستان کی جنگ ازادی کے بعد علماے کرام اور عوام الناس کے درمیان ایک خلیج حاءیل تھی ھضرت مولانا الیاس ساحب رح کی محنت سے یہ خلیج دور ہوءی اور عوام کی روزمرہ کی زندگی میں علماء کی قربت کی وجہ سے دینی جزبات اور روح داخل ہوءی جو باطل کو ایک انکھ نہ بھاءی اور علماء کو اس فتنہ میں مبتلاء کر کے دوبارہ وہ خلیج پیدا کی جارہی ہے اگر ہمارے سنجیدہ علماءے کرام نے اس فتنہ کا قلع قمع نہ کیا تو ایسا بحران اے گا جس کی صریوں میں بھی تلافی نہ ہوسکے گی اس لءے نہایت ادب سے علماءے کرام کی خدمت میں درخواست ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اپنے سارے اثرورسوخ کو استعمال کرکے لوگوں کے پیسے دلواءیں یہ امت پر بہت بڑا احسان ہوگا ورنہ لوگوں کے دل سے علماء کا احترام نکل جاءے گا اور باطل کے لءے میدان صاف ہوجاءے گا۔
فقط والسلام
شیخ محمد اقبال کریمی
راولپنڈی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔